امیر المؤمنین سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی فضیلت

عمومی طور پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جو بھی فضائل قرآن مجید کی آیات اور احادیث میں وارد ہیں ان میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، مثلا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

⭐(مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا . (سورة الفتح 29)

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)  اللہ کے رسول ہیں اور جو(سچے، پاک، مؤمنین) لوگ آپ کے ساتھ ہیں(ان کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ) وہ کافروں پر تو (پہاڑ کی مانند) سخت (مگر) آپس میں رحم دل(شفقت، ہمدردی اور محبت کرنے والے) ہیں۔(وہ دنیا میں کسی بھی طاغوتی طاقت کے آگے نہیں جھکتے، صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں)( اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر  امتیازی نشان موجود ہیں۔ ان(صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے ( ایمان والے صحابہ کرام کی کوشش اور جہاد کی مثال ایسے ہے )جیسے ایک کھیتی ہو جس نے(زمین سے) اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہوگئی (اس وقت وہ) کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔

وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (سورة التوبة 100)

اور وہ مہاجر اور انصار(صحابہ) جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ(مسلمان) لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان(صحابہ کرام) کی اتباع  کی(بعد میں مسلمان ہوئے اور نیک اعمال کرنے میں صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلے)، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے (دائمی نعمتوں والے ) باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے (سورة التَّوۡبَۃِ آيت 100)

⭐ سورۃ التوبہ قرآن مجید کی آخر میں نازل ہونے والی سورت ہے یعنی اللہ تعالی نے وحی کی تکمیل کے آخری مراحل میں  تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے اپنی دائمی رضامندی، کامیابی و کامرانی اور فتح کا اعلان فرمایا جن میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔

⭐ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللّٰهُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ نُوْرُهُمْ یَسْعٰى بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ بِاَیْمَانِهِمْ..

اس(قیامت کے) دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں(یعنی صحابہ کرام اور دوسرے ایمان والوں کو کبھی بھی) رسوا نہیں کرے گا۔ ان (کے ایمان)  کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور  پورا کردے اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے… (سورة التَّحۡرِیۡمِ  آيت 8)

⭐ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ. 

 

پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور(ان) مومنوں پر( جو جنگ حنین میں آپ کے ساتھ تھے) تسکین نازل فرمائی اور( ان کی مدد کے لیے فرشتوں کے) ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا یہی بدلہ ہے… (سورة التَّوۡبَۃِ آيت 26)

سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما ان مؤمنین صحابہ کرام میں شامل تھے جن پر اللہ تعالیٰ نے دل کا قرار اور تسکین نازل فرمائی۔

⭐ لَا یَسْتَوِیْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قٰتَلَ اُولٰٓىِٕكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَ قٰتَلُوْا وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ۠ . 

 تم میں سے جن لوگوں نے فتح (مکہ) کے بعد(اللہ کی راہ میں) خرچ کیا اور جہاد کیا وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا۔ یہی لوگ درجہ میں زیادہ ہیں۔ تاہم اللہ نے ہر ایک سے( یعنی جن صحابہ نے پہلے خرچ کیا اور جنہوں نے بعد میں خرچ کیا) اچھا وعدہ کیا ہے۔ اور( یاد رکھو) جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے (سورة الۡحَدِیۡدِ  آيت 10)

یعنی اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ سے قبل اور بعد میں خرچ کرنے والے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان تمام آیات کے یقینی مصداق ہیں۔(وغيرها من الآيات)

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے (ایمان والے) لوگ ہیں، ان کے بعد دوسرے اور تیسرے زمانے کے لوگ سب سے بہترین ہیں (صحيح بخاری:  2652 )

⭐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ میری امت کے لیے باعث امن ہیں، جب یہ گذر جائے گیں تو امت میں وہ فتنے ظاہر ہوجائیں گے جن کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ (صحيح مسلم: 2531)

 

⭐ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وجود امت کے لیے باعث برکت ہے، صحابہ کرام کی برکت سے امت کو کامیابی اور فتح نصیب ہوتی ہے (صحيح بخاری: 3649 ، صحيح مسلم: 2532)

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس مسلمان کو دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے (بحالت ایمان) مجھے دیکھا ہوگا۔ (جامع ترمذی: 3858) 

⭐ قبیلہ قریش کے فضائل میں جتنی بھی احادیث مروی ہیں ان میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اس لیے کہ آپ کا تعلق بھی قبیلہ قریش سے تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: 

كُلُّ سَبَبٍ ونَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ القِيامَةِ إلّا سَبَبِي ونَسَبِي»

(المعجم الكبير للطبراني: ١١٦٢١, السنن الكبرى للبيهقي: ١٣٣٩٤, الصحیحہ للالبانی: ٢٠٣٦)

یعنی قیامت کے دن ہر سببی اور نسبی تعلق منقطع ہوجائے گا مگر (ایمان و اسلام پر مشتمل) میرا سببی اور نسبی تعلق روز قیامت بھی برقرار رہے گا۔ 

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سببی (سسرالی) اور نسبی(خاندانی) دونوں ہی تعلق تھے اور وہ قیامت کے دن بھی قائم رہیں گے۔! 

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے رحمت والی نبوت ہوگی، اس کے بعد رحمت والی خلافت ہوگی، پھر اس کے بعد رحمت والی بادشاہت ہوگی پھر رحمت والی امارت ہوگی۔ (المعجم الکبير للطبرانی: 11138. المعجم الاوسط: الصحيحة: 3270)

یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت والا قرار دیا ہے۔

 

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم صحابہ کرام کی ایک مجلس جس میں ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے کے پاس آکر رکے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہاری وجہ سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے (صحيح مسلم: 2701)

یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان شخصیات میں سے ہیں جن پر اللہ رب العالمین فخر کرتا ہے۔

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا:

اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا، وَاهْدِ بِهِ

اے اللہ! معاویہ کو ہادی اور مھدی بنا دے یعنی خود بھی ہدایت یافتہ ہوں اور دوسروں کے لیے بھی ہدایت کا سبب بن جائیں۔ (جامع ترمذی: 3842) 

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان خوش نصیب شخصیات میں شامل ہیں جن کے لیے اللہ تعالی نے جنت کو واجب کردیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ الْبَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا وہ پہلا لشکر جو سمندری جہاد کرے گا ان کے لیے جنت واجب ہے۔ (صحيح بخاری: 2924)

یہ جہاد جس کا ذکر اس حدیث میں ہے یہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا۔ (صحيح بخاری: 6283، 2789، 7001 ، مسلم: 1912)

اور اس سمندری جہاد میں خود سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے  (صحيح بخاری: 2800)

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے جو لوگ یہ سمندری جہاد کرے گیں انہیں میں نے جنت میں بادشاہوں کی طرح ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے دیکھا۔ (صحیح بخاری: 2877-2878, صحیح مسلم: 1912)

 

⭐ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان کے مہینے میں رات کے آخری حصہ میں جو قبولیت کا وقت ہوتا ہے اپنے صحابہ کو سحری کے لیے آواز لگاتے سنا اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی:

اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَالْكِتَابَ وَالْحِسَابَ، وَقِهِ الْعَذَابَ

اے اللہ: تو معاویہ کو (اپنی ) کتاب (قرآن ) کا علم اور حساب کا علم عطا فرما اور انہیں عذاب سے بچا۔ (مسند احمد : 17152، صحيح ابن خزيمة : 1938)

یہ بات دلائل سے ثابت ہے کہ رات کے آخری پہر میں، اور خصوصا رمضان کے مہینے میں ایک عام مسلمان کی دعا بھی قبول کی جاتی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدنا معاویہ کے حق میں اس دعا کے کیا ہی کہنے!!

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کے پاس آکر عرض کی: اللہ کے نبی! آپ مجھے تین چیزیں عطا فرما دیجیے ( تین چیزوں کے بارے میں میری درخواست قبول فرما لیجیے ۔ ) آپ نے جواب دیا :’’ ہاں ۔‘‘

1: میری بیٹی ام حبیبہ عرب کی سب سے زیادہ حسین و جمیل خاتون ہے ، میں اسے آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا:’’ ہاں ۔‘‘

2: اور معاویہ (میرا بیٹا) آپ اسے اپنے پاس حاضر رہنے والا کاتب بنا دیجیے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ ہاں ۔‘‘

3: آپ مجھے کسی دستے کا امیر (بھی) مقرر فرمائیں تاکہ جس طرح میں مسلمانوں کے خلاف لڑتا تھا ، اسی طرح کافروں کے خلاف بھی جنگ کروں ۔ آپ نے فرمایا:’’ ہاں (صحيح مسلم: 2501)

⭐ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حبر الامہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ:

«اُدْعُ لِيۡ مُعاوِيَةَ» وَكَانَ يَكْتُبُ الۡوَحْيَ.

یعنی آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کو میرے پاس لے آؤ اور وہ یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ تعالی کی وحی لکھنے کا کام کرتے تھے (دلائل النبوة للبيهقی 2/ 243)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اللہ تعالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک کتنا بڑا مقام تھا اور آپ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بے انتہا اعتماد اور بھروسہ رکھتے تھے اور انہیں اتنا امانتدار سمجھتے تھے کہ کاتب وحی مقرر فرمایا۔

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے سگے بھائی تھے، مطلب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادر نسبتی یعنی سالے تھے اور خال المومنین یعنی تمام ایمان والوں کے ماموں ہیں، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: میں یہی کہتا ہوں کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دونوں ہی مؤمنوں کے ماموں ہیں۔ (السنة 2/ 433)

⭐ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب میں نے لوگوں کو فتنے میں دیکھا تو ہمیشہ میری یہی خواہش رہی کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کو دے دے (المنتقی من ڪتاب الطبقات لابی عروبه 1/ 41)

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ رضی اللہ عنہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک اور آپ کے بال مبارک کا سوال کیا تو ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے چادر مبارک بھی دی اور بال مبارک بھی پانی میں بھگو کر دیے جسے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اور برکت کی خاطر اپنے جسم پر بہانے لگے (تاريخ دمشق 62/ 106)

⭐ بصرہ میں کابس بن ربیع نام کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکلی مشابہت رکھتا تھا، جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے بصرہ کے گورنر کو خط لکھ کر اس شخص کو اپنے پاس بلوایا، جب وہ شخص آپ کے پاس پہنچا: 

فَلَمَّا دَخَلَ إِلىٰ مُعَاوِيَةَ نَزَلَ عَنۡ سَرِيۡرِهٖ وَمَشَيٰ إِلَيۡهِ حَتّىٰ قَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ، وأقْطَعَهُ المَرْغابَ

آپ اس کا استقبال کرنے کے لیے اپنے تخت سے نیچے اتر کر اس کی طرف چلے اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب علاقے میں جاگیر عطا فرمائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مشابہت کی وجہ سے۔

(کتاب المحبر لابن حبيب رحمه الله المتوفی 245ھ ص 46، 47، 62. أنساب الأشراف للبلاذری 11/‏32، تاريخ دمشق لابن عساكر 50/‏4 )

⭐ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: میں نے (خلفائے راشدین) کے بعد حکومت کے لائق سب سے بہتر انسان سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو پایا ہے۔ (تاريخ دمشق 22/ 161. السنة للخلال: 677 مصنف عبدالرزاق)

⭐ یاد رہے کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے جو بھی اختلاف تھا وہ خلافت اور حکومت کی لالچ و حرص کے لیے نہیں تھا۔ 

ابو مسلم الخولانی رحمہ اللہ اپنے ساتھیوں سمیت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور عرض کی کہ کیا آپ کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف اس لیے ہے کہ آپ اپنے آپ کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بہتر و افضل اور خلافت کے زیادہ حقدار سمجھتے ہیں؟ جس پر سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! ایسی بات نہیں ہے بلکہ میں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے سے بہتر و افضل اور خلافت کا بھی زیادہ اہل اور حقدار سمجھتا ہوں۔ لیکن تمہیں بھی علم ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلومانہ طور پر شہید کردیا گیا ہے اور وہ میرے قریبی رشتے دار اور کزن تھے۔ بس میرا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہی مطالبہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قصاص کے لیے میرے حوالے کیا جائے تاکہ میں اللہ کا حکم قصاص ان پر نافذ کرسکوں … رضی اللہ عنہم (تاريخ دمشق 59/ 132 . اشاعة الحديث 133/ 37)

⭐ بلکہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو علمی مسائل معلوم کرنے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے، جیسا کہ شام میں زنا کے الزام میں قتل کیے گئے شخص کے بارے میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر مسئلہ معلوم کیا (الموطا لمالک 2/ 737- 738 ح 1486. شرح موطا للشيخ زبير علی زئی رحمه الله ص 520)

⭐ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ایک رکعت وتر کے بارے میں سچ کہتے ہیں کیونکہ آپ خود فقیہ ہیں (صحیح بخاری: 3765)

⭐ سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر کچھ اعتراض کیے جن کے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کافی و شافی جواب دیے، جس پر سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مجھ سے زور ہیں! اور پھر وہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے کہ: اے اللہ! تو معاویہ کی مغفرت فرما۔ رضی اللہ عنہم

(تاريخ بغداد 1/ 108- 109)

⭐ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اور خلفائے راشدین) کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر سخی، حلیم یعنی بردبار کسی اور کو نہیں دیکھا (تاريخ دمشق 59/ 173)

⭐ مزید فرمایا کہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر شان و شوکت والا کوئی نہیں دیکھا (سابقہ حوالہ)

⭐ رافضی سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو معصوم امام یعنی جن کا ہر عمل اور فیصلہ خطا سے محفوظ اور بالکل حق اور سچ قرار دیتے ہیں، تو پھر یہ بتائیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی، آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تو کیا رافضی حضرات سیدنا حسن کے اس فیصلہ کو بھی حق اور سچ تسلیم کرتے ہیں! ؟

⭐ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بعد سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حق اور سچ کے مطابق فیصلہ کرنے والا نہیں دیکھا۔ (تاريخ دمشق 59/ 160- 161 وسنده حسن اشاعة الحديث 135- 136 ص 9)

⭐ سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے تمہارے اس امام یعنی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ (المعجم الصحابه للبغوی 5/ 367 وسنده صحيح. اشاعة الحديث 135- 136 ص 9)

 

⭐ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت، اتباع سنت، خشیت اور تقوی کے کچھ واقعات کے دیکھیے: صحيح بخاری: 587 ، 914 ،3468 ، 2003 ، 1730 صحيح مسلم: 883 ، جامع ترمذی: 3653. 2382 ، 1580 ابوداؤد : 2759 )

⭐ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھرپور اعتماد کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہم کے دور خلافت میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کتنے ہی سال شام کے علاقے میں حکمران اور گورنر رہے۔

⭐ امام عبدالله بن مبارک رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ زیادہ افضل ہیں یا امیر المومنین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ؟

امام صاحب رحمہ اللہ نے حالت غصہ میں ارشاد فرمایا: وہ غبار جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ناک پر لگی عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ سے ہزار درجے بہتر ہے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو وہ ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نمازیں پڑھی ہیں( پھر عمر بن عبدالعزیز کا سیدنا معاویہ کے ساتھ موازنہ ومقابلہ کیسے ہوسکتا ہے!!) (تاريخ دمشق 59 / 211 . وفيات الأعيان ، لابن خلقان (3 /33)  الشريعه للآجری)

⭐ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ: 

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام ہمارے لیے اور دیگر صحابہ کرام کے لیے ایک درپردہ امتحان اور آزمائش کی مانند ہے جو شخص بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف میلی آنکھ یعنی تنقیص والی بری نظر سے دیکھے گا تو وہ اس امتحان میں ناکام ہوجائے گا، پھر وہ اکابر صحابہ کرام (شیخین وغیرہ) کی توہین کا بھی مرتکب بن جائے گا۔ (البداية والنهاية :  8/ 139)